بنبھور
سندھ کے ضلع ٹھٹھہ میں گھارو کھاڑی کے شمالی کنارے قدیم بندرگاھی شہر بنبھور واقع ہے۔ یہ شہر دریا کو سمندر سے جوڑتا تھا اور پہلی صدی قبل مسیح سے تیرہویں صدی عیسوی تک بحیرہ روم، مشرق وسطیٰ، بھارت، جنوب مشرقی ایشیا اور چین سے جڑے وسیع بین الاقوامی تجارتی جال کا حصہ تھا۔
اس کے اصل حقائق تاحال غیر واضح ہیں۔ کیا یہ وہی بندرگاہی شہر ہے جس کا ذکر پیری پلس آف دی ایریتھرین سی اور دیگر یونانی ذرائع میں "بارباریکن” کے طور پر کیا گیا ہے؟ یا یہ وہ مشہور بندرگاہی قصبہ "دیبل” ہے، جس کا ذکر عربی اور فارسی ذرائع میں ایک بڑے بندرگاھی شہر کے طور پر کیا گیا ہے، جسے ۷۱۲ء میں محمد بن قاسم نے فتح کیا تھا۔
بنبھور
سندھ کے ضلع ٹھٹھہ میں گھارو کھاڑی کے شمالی کنارے قدیم بندرگاھی شہر بنبھور واقع ہے۔ یہ شہر دریا کو سمندر سے جوڑتا تھا اور پہلی صدی قبل مسیح سے تیرہویں صدی عیسوی تک بحیرہ روم، مشرق وسطیٰ، بھارت، جنوب مشرقی ایشیا اور چین سے جڑے وسیع بین الاقوامی تجارتی جال کا حصہ تھا۔
اس کے اصل حقائق تاحال غیر واضح ہیں۔ کیا یہ وہی بندرگاہی شہر ہے جس کا ذکر پیری پلس آف دی ایریتھرین سی اور دیگر یونانی ذرائع میں "بارباریکن” کے طور پر کیا گیا ہے؟ یا یہ وہ مشہور بندرگاہی قصبہ "دیبل” ہے، جس کا ذکر عربی اور فارسی ذرائع میں ایک بڑے بندرگاھی شہر کے طور پر کیا گیا ہے، جسے ۷۱۲ء میں محمد بن قاسم نے فتح کیا تھا۔

یہ سندھ میں کہاں واقع ہے؟
ٹھٹھہ ضلع میں بنبھور کا مقام دیکھیں، جو گھارو سے تقریباً ۶ کلومیٹر مغرب میں واقع ہے

اس کے برعکس، تاہم، ابھی تک واضح نہیں ہے. کیا یہ وہی بندرگاہی شہر ہے جس کا تذکرہ Periplus of the Erythraean Sea (اور دیگر یونانی ذرائع) میں Barbrikon کے نام سے کیا گیا ہے؟ متبادل کے طور پر، کیا یہ دیبل کی مشہور بندرگاہ (‘دیبل’) ہے جس کا ذکر عربی اور فارسی ذرائع میں دریائے سندھ کے کنارے ایک بڑے بندرگاہی شہر کے طور پر کیا گیا ہے، جسے محمد بن قاسم نے 712ء میں فتح کیا تھا؟
اس کے اصل حقائق تاحال غیر واضح ہیں۔ کیا یہ وہی بندرگاہی شہر ہے جس کا ذکر پیری پلس آف دی ایریتھرین سی اور دیگر یونانی ذرائع میں "بارباریکن” کے طور پر کیا گیا ہے؟ یا یہ وہ مشہور بندرگاہی قصبہ "دیبل” ہے، جس کا ذکر عربی اور فارسی ذرائع میں ایک بڑے بندرگاھی شہر کے طور پر کیا گیا ہے، جسے ۷۱۲ء میں محمد بن قاسم نے فتح کیا تھا۔
آثار قدیمہ کی دریافتیں
ڈیلٹا کے زیادہ تر دیگر شہروں کے برعکس، بنبھور ایک قلعہ بند شہر کے طور پر ترقی پذیر ہوا، نہ کہ قلعے کے ارد گرد بسنے والے ایک عام شہر کی طرح، لہٰذا یہ ایک وسیع اور پیچیدہ آثار قدیمہ کا مقام ہے۔ بنبھور میں آثار قدیمہ کی کھدائی (1950ء کی دہائی سے شروع ہونے والی) نے اس کے دورانیے اور مختلف سلطنتوں کے تسلط کی شناخت
میں مدد دی ہے۔ اب تک کی تحقیقات میں رہائشی علاقے، بازار، ورکشاپس، ایک بڑی اجتماعی مسجد، ایک شیوا مندر اور ایک بندرگاہی محاذ دریافت ہو چکے ہیں۔
ڈیلٹا کے زیادہ تر دیگر شہروں کے برعکس، بنبھور ایک قلعہ بند شہر کے طور پر ترقی پذیر ہوا، نہ کہ قلعے کے ارد گرد بسنے والے ایک عام شہر کی طرح، لہٰذا یہ ایک وسیع اور پیچیدہ آثار قدیمہ کا مقام ہے۔ بنبھور میں آثار قدیمہ کی کھدائی (1950ء کی دہائی سے شروع ہونے والی) نے اس کے دورانیے اور مختلف سلطنتوں کے تسلط کی شناخت میں مدد دی ہے۔ اب تک کی تحقیقات میں رہائشی علاقے، بازار، ورکشاپس، ایک بڑی اجتماعی مسجد، ایک شیوا مندر اور ایک بندرگاہی محاذ دریافت ہو چکے ہیں۔
شہر میں تین دروازے تھے: مشرقی دروازہ قدیم جھیل اور بیرونی شہر کی طرف کھلتا تھا۔ شمال مشرقی دروازہ ایک بڑے نیم دائرہ نما عمارت کو جھیل سے جوڑتا تھا اور شہر کے باسیوں کے استعمال میں تھا۔ جنوبی دروازہ گھارو کھاڑی پر نظر رکھتا تھا۔ شہر میں ایک تقسیمی دیوار شمال سے جنوب کی جانب بنائی گئی تھی، جس کا مقصد شاید امیر طبقے کو باقی
شہر سے الگ کرنا تھا اور یہ بنبھور کے آخری دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ ایک مرکزی صحن کے ارد گرد ترتیب دیئے گئے مکانات کی دریافت، جو گلیوں کے جال سے جڑے ہوئے ہیں، اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ شہر کی منصوبہ بندی میں کسی مرکزی اختیار کا عمل دخل تھا۔
شہر میں تین دروازے تھے: مشرقی دروازہ قدیم جھیل اور بیرونی شہر کی طرف کھلتا تھا۔ شمال مشرقی دروازہ ایک بڑے نیم دائرہ نما عمارت کو جھیل سے جوڑتا تھا اور شہر کے باسیوں کے استعمال میں تھا۔ جنوبی دروازہ گھارو کھاڑی پر نظر رکھتا تھا۔ شہر میں ایک تقسیمی دیوار شمال سے جنوب کی جانب بنائی گئی تھی، جس کا مقصد شاید امیر طبقے کو باقی شہر سے الگ کرنا تھا اور یہ بنبھور کے آخری دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ ایک مرکزی صحن کے ارد گرد ترتیب دیئے گئے مکانات کی دریافت، جو گلیوں کے جال سے جڑے ہوئے ہیں، اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ شہر کی منصوبہ بندی میں کسی مرکزی اختیار کا عمل دخل تھا۔
اپنی طویل تاریخ کے پیش نظر، یہ فطری ہے کہ بنبھور کی آثار قدیمہ کی باقیات مختلف گہرائیوں پر ملی ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ نے یہاں تین اہم ادوار کی نشاندہی کی ہے، جو ایک دوسرے کے نیچے دفن ہیں۔ سب سے اوپر اسلامی دور (اموی اور عباسی، ۸ویں سے ۱۳ویں صدی) کی باقیات ہیں، جو سب سے زیادہ بآسانی قابل رسائی ہیں۔ اس کے نیچے ہندو ساسانی
دور (تیسری صدی سے ۷ویں صدی عیسوی) کی تہہ موجود ہے۔ سب سے نچلی سطح سیت ھیو پارتھی دور (پہلی صدی قبل مسیح سے دوسری صدی عیسوی) پر مشتمل ہے (خان، ۱۹۶۰)۔
اپنی طویل تاریخ کے پیش نظر، یہ فطری ہے کہ بنبھور کی آثار قدیمہ کی باقیات مختلف گہرائیوں پر ملی ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ نے یہاں تین اہم ادوار کی نشاندہی کی ہے، جو ایک دوسرے کے نیچے دفن ہیں۔ سب سے اوپر اسلامی دور (اموی اور عباسی، ۸ویں سے ۱۳ویں صدی) کی باقیات ہیں، جو سب سے زیادہ بآسانی قابل رسائی ہیں۔ اس کے نیچے ہندو ساسانی دور (تیسری صدی سے ۷ویں صدی عیسوی) کی تہہ موجود ہے۔ سب سے نچلی سطح سیت ھیو پارتھی دور (پہلی صدی قبل مسیح سے دوسری صدی عیسوی) پر مشتمل ہے (خان، ۱۹۶۰)۔
مقام پر دریافت شدہ نوادرات
شہر کے آخری دور سے تعلق رکھنے والے مٹی کے سانچوں کے ٹکڑے دریافت ہوئے ہیں، جو ممکنہ طور پر تانبے کے سکے بنانے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ ۲۰۲۰ کی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ قلعہ بند شہر کے مرکزی علاقے میں ہاتھی دانت کی کاریگری کی ایک ورکشاپ کے آثار موجود ہیں، جو بعد کے اسلامی دور (۱۲ویں سے ۱۳ویں صدی) سے تعلق رکھتے ہیں۔ ۲۰۲۰ کی پاکستانی ، اطالوی کھدائی کی شائع شدہ رپورٹس کے مطابق، ہاتھی دانت کی یہ
دریافت بنبھور کو دنیا میں واحد آثار قدیمہ کی جگہ بناتی ہے جہاں ہاتھی دانت کا ورکشاپ موجود تھا۔ محقق کے مطابق یہ کسی بھی آثار قدیمہ کی جگہ سے برآمد ہونے والی ہاتھی دانت کی اشیاء کی سب سے بڑی تعداد ہے (فیورانی ۲۰۲۱).
شہر کے آخری دور سے تعلق رکھنے والے مٹی کے سانچوں کے ٹکڑے دریافت ہوئے ہیں، جو ممکنہ طور پر تانبے کے سکے بنانے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ ۲۰۲۰ کی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ قلعہ بند شہر کے مرکزی علاقے میں ہاتھی دانت کی کاریگری کی ایک ورکشاپ کے آثار موجود ہیں، جو بعد کے اسلامی دور (۱۲ویں سے ۱۳ویں صدی) سے تعلق رکھتے ہیں۔ ۲۰۲۰ کی پاکستانی ، اطالوی کھدائی کی شائع شدہ رپورٹس کے مطابق، ہاتھی دانت کی یہ دریافت بنبھور کو دنیا میں واحد آثار قدیمہ کی جگہ بناتی ہے جہاں ہاتھی دانت کا ورکشاپ موجود تھا۔ محقق کے مطابق یہ کسی بھی آثار قدیمہ کی جگہ سے برآمد ہونے والی ہاتھی دانت کی اشیاء کی سب سے بڑی تعداد ہے (فیورانی ۲۰۲۱).
ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے، خاص طور پر اس مقام کے سمندری آثار قدیمہ کی تحقیقات۔ انڈس ڈیلٹا کے دیگر مقامات کی طرح، بنبھور کا زوال ۱۳ویں صدی میں دریائے سندھ کے رخ بدلنے کی وجہ سے ہوا، جس سے اس کی تجارتی سرگرمیاں اور اہمیت کم ہوگئی۔ تاہم بنبھور سے برآمد ہونے والے نوادرات نہ صرف سندھ کی
تاریخ بلکہ وسیع تر بحر ہند کے خطے کے لیے بھی اہمیت رکھتے ہیں، جہاں یہ بندرگاہوں اور ساحلی شہروں کے وسیع نیٹ ورک میں ایک مرکزی نقطہ تھا۔
ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے، خاص طور پر اس مقام کے سمندری آثار قدیمہ کی تحقیقات۔ انڈس ڈیلٹا کے دیگر مقامات کی طرح، بنبھور کا زوال ۱۳ویں صدی میں دریائے سندھ کے رخ بدلنے کی وجہ سے ہوا، جس سے اس کی تجارتی سرگرمیاں اور اہمیت کم ہوگئی۔ تاہم بنبھور سے برآمد ہونے والے نوادرات نہ صرف سندھ کی تاریخ بلکہ وسیع تر بحر ہند کے خطے کے لیے بھی اہمیت رکھتے ہیں، جہاں یہ بندرگاہوں اور ساحلی شہروں کے وسیع نیٹ ورک میں ایک مرکزی نقطہ تھا۔
مقامی لوک داستان
انڈس ڈیلٹا میں بنبھور کی اہمیت اس کے ذکر سے بھی ظاہر ہوتی ہے، جو شاہ عبداللطیف بھٹائی (۱۷۸۹-۱۷۵۲) کی سندھی شاعری میں موجود ہے۔ بھٹائی نے ۱۸ویں صدی میں لکھا، جو بنبھور کے ویران ہونے کے تقریباً پانچ صدیوں بعد تھا لیکن پھر بھی شاہ جو رسالو میں یہ مشہور محبت کی کہانی "سسی پنوں” کے پس منظر کے طور پر نمایاں ہے۔
بنبھور کو سسی کی جائے پیدائش کے طور پر بیان کیا گیا ہے، جسے پیدا ہوتے ہی منحوس قرار دیا جاتا ہے۔ اس کا باپ ایک ہندو راجا تھا، اسے ایک لکڑی کے صندوق میں رکھ کر دریائے سندھ میں بہا دیتا ہے، جہاں ایک دھوبی اسے دریافت کر کے پال لیتا ہے۔ جوان ہونے پر، سسی کو پنوں سے محبت ہو جاتی ہے، جو بلوچستان کا ایک شہزادہ تھا۔

نہ دو ترغیب مجھ کو واپسی کی
کہ یہ توہین ہے وارفتگی کی
کبھی بھنبھور میں جو دل کشی تھی
جھلک بھی اب نہیں اس دل کشی کی
دیا ہے جب سے دل پنہوں کو سکھیو!
نہیں ہے مجھ کو حسرت زندگی کی
سندھ کی زبانی روایات، لوک کہانیاں اور ادب میں بھی بنبھور کا ذکر ملتا ہے، جو اس کی ثقافتی اور تجارتی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ بعض مؤرخین کے مطابق، "سسی پنوں” نہ صرف ایک لوک داستان ہے بلکہ تاریخی معلومات کا ایک ذریعہ بھی ہے، جو بنبھور میں مختلف تجارتی سرگرمیوں کو بیان کرتی ہے۔ مثال کے طور پر سسی اور اس کی سہیلیوں کا دھاگہ بننا، سسی کے والد کا کپڑے دھونا اور رنگنا۔ ۲۰۲۰ میں آثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران مٹی کے
بڑے مٹکے دریافت ہوئے، جو ممکنہ طور پر رنگنے اور دھونے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ یہ دریافت اس لوک کہانی میں بیان کردہ تفصیلات سے ملتی جلتی ہے جو بنبھور کی تجارتی سرگرمیوں کی عکاسی کرتی ہے۔
سندھ کی زبانی روایات، لوک کہانیاں اور ادب میں بھی بنبھور کا ذکر ملتا ہے، جو اس کی ثقافتی اور تجارتی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ بعض مؤرخین کے مطابق، "سسی پنوں” نہ صرف ایک لوک داستان ہے بلکہ تاریخی معلومات کا ایک ذریعہ بھی ہے، جو بنبھور میں مختلف تجارتی سرگرمیوں کو بیان کرتی ہے۔ مثال کے طور پر سسی اور اس کی سہیلیوں کا دھاگہ بننا، سسی کے والد کا کپڑے دھونا اور رنگنا۔ ۲۰۲۰ میں آثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران مٹی کے بڑے مٹکے دریافت ہوئے، جو ممکنہ طور پر رنگنے اور دھونے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ یہ دریافت اس لوک کہانی میں بیان کردہ تفصیلات سے ملتی جلتی ہے جو بنبھور کی تجارتی سرگرمیوں کی عکاسی کرتی ہے۔



بھنبھور کا 3D تجربہ دریافت کریں۔
ماہروں کی آراء: بنبھور پر گفتگو






ماہروں کی آراء: بنبھور پر گفتگو






مقام کا تصویر خانہ
بنبھور سے متعلق مزید تصاویر اور ویڈیوز





ورثے کے وسائل تک رسائی
ہمارے ورثے کے منصوبے کو تفصیل سے دریافت کرنے کے لیے ضروری دستاویزات، تصاویر اور آلَہ دریافت کریں۔

ان مقامات پر اپنی تحقیق جاری رکھنے کے ليے
ورثے کے وسائل تک رسائی
ہمارے ورثے کے منصوبے کو تفصیل سے دریافت کرنے کے لیے ضروری دستاویزات، تصاویر اور آلَہ دریافت کریں۔
