رانوکوٹ

رانو کوٹ قلعہ دھراجا ریاست سے منسوب کیا جاتا ہے، جو اٹھارہویں صدی میں مغل سلطنت کے زوال کے دوران دریائی علاقے میں موجود کئی جاگیروں میں سے ایک تھی۔ جبکہ مغل حکومت  ٹھٹھہ میں قائم تھی جسے کلہوڑوں کی حمایت حاصل تھی، دھراجا کے راناؤں نے مغربی ڈیلٹا کے علاقے پر حکمرانی کی۔ رانو کوٹ ان کا ایک اہم قلعہ تھا۔

رانوکوٹ

رانو کوٹ قلعہ دھراجا ریاست سے منسوب کیا جاتا ہے، جو اٹھارہویں صدی میں مغل سلطنت کے زوال کے دوران دریائی علاقے میں موجود کئی جاگیروں میں سے ایک تھی۔ جبکہ مغل حکومت  ٹھٹھہ میں قائم تھی جسے کلہوڑوں کی حمایت حاصل تھی، دھراجا کے راناؤں نے مغربی ڈیلٹا کے علاقے پر حکمرانی کی۔ رانو کوٹ ان کا ایک اہم قلعہ تھا۔

یہ سندھ میں کہاں واقع ہے؟

میرپور ساکرو ضلع میں رانو کوٹ کا محل وقوع دیکھیں۔

مقام کی وضاحت

رانوکوٹ میرپور ساکرو کے زرعی علاقے میں واقع ہے۔ تاریخی طور پر، یہ قلعہ ملحقہ آبی گزرگاہوں کے تحفظ کے لیے استعمال ہوتا تھا لیکن اب یہ قریبی دریا کی شاخ سے ایک میل سے زیادہ فاصلے پر ہے۔ قلعے کے کھنڈرات زرعی کھیتوں اور چراگاہوں سے گھِرے ہوئے ہیں۔ آج صرف مغربی اور جنوبی دیواریں نظر آتی ہیں لیکن وہ بھی گھنے نباتات سے ڈھکی ہوئی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مشرقی اور شمالی دیواریں طویل عرصہ پہلے تباہ ہو چکی ہیں۔ یہ معلوم نہیں کہ یہ تباہی دریا کے بہاؤ میں تبدیلی کی وجہ سے ہوئی یا زمین  کو زرعی یا

 چراگاہی مقاصد کے لیے قابلِ استعمال بنانے کی کوششوں کے نتیجے میں۔ ایک آبپاشی کی  پتلی نہر اس جگہ سے گزرتی ہے جہاں شمالی دیوار ہوا کرتی تھی۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ اس نہر کی کھدائی دیوار اور اس کے برجوں کی تباہی سے جڑی ہوئی ہے یا نہیں۔ اسی طرح مشرقی دیوار بھی غائب ہے۔ اس دیوار کے راستے پر ایک بڑا اینٹوں کا ٹیلہ موجود ہے، جو قلعے کے دروازے کی باقیات سے منسلک ہو سکتا ہے۔

رانوکوٹ میرپور ساکرو کے زرعی علاقے میں واقع ہے۔ تاریخی طور پر، یہ قلعہ ملحقہ آبی گزرگاہوں کے تحفظ کے لیے استعمال ہوتا تھا لیکن اب یہ قریبی دریا کی شاخ سے ایک میل سے زیادہ فاصلے پر ہے۔ قلعے کے کھنڈرات زرعی کھیتوں اور چراگاہوں سے گھِرے ہوئے ہیں۔ آج صرف مغربی اور جنوبی دیواریں نظر آتی ہیں لیکن وہ بھی گھنے نباتات سے ڈھکی ہوئی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مشرقی اور شمالی دیواریں طویل عرصہ پہلے تباہ ہو چکی ہیں۔ یہ معلوم نہیں کہ یہ تباہی دریا کے بہاؤ میں تبدیلی کی وجہ سے ہوئی یا زمین کو زرعی یا چراگاہی مقاصد کے لیے قابلِ استعمال بنانے کی کوششوں کے نتیجے میں۔ ایک آبپاشی کی  پتلی نہر اس جگہ سے گزرتی ہے جہاں شمالی دیوار ہوا کرتی تھی۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ اس نہر کی کھدائی دیوار اور اس کے برجوں کی تباہی سے جڑی ہوئی ہے یا نہیں۔ اسی طرح مشرقی دیوار بھی غائب ہے۔ اس دیوار کے راستے پر ایک بڑا اینٹوں کا ٹیلہ موجود ہے، جو قلعے کے دروازے کی باقیات سے منسلک ہو سکتا ہے۔

میرپور ساکرو میں واقع رانوکوٹ کے آثار۔
میرپور ساکرو میں واقع رانوکوٹ کے آثار۔

تعمیراتی طریقے

رانوکوٹ میں مختلف قسم کا تعمیراتی فن دیکھا جا سکتا ہے۔ دیواریں اور برج مٹی یا سینڈ اسٹون (ریت کے پتھر) سے بنے معلوم ہوتے ہیں، جنہیں ڈھیلی مٹی اور پتھروں کے ملبے سے بھرا گیا ہے۔ نیز چونے کے گارے کا استعمال کیا گیا تھا، لیکن عمارت کی انتہائی خستہ حالت کے باعث یہ صرف کچھ مخصوص مقامات پر نظر آتا ہے۔

 مغربی اور جنوبی دیواروں پر موجود کونے کے برج اور ایک درمیانی دیوار کا برج اب بھی نظر آتے ہیں لیکن گھنے نباتاتی نمو کے باعث زمین پر ان کا معائنہ کرنا مشکل ہے۔

رانوکوٹ میں مختلف قسم کا تعمیراتی فن دیکھا جا سکتا ہے۔ دیواریں اور برج مٹی یا سینڈ اسٹون (ریت کے پتھر) سے بنے معلوم ہوتے ہیں، جنہیں ڈھیلی مٹی اور پتھروں کے ملبے سے بھرا گیا ہے۔ نیز چونے کے گارے کا استعمال کیا گیا تھا، لیکن عمارت کی انتہائی خستہ حالت کے باعث یہ صرف کچھ مخصوص مقامات پر نظر آتا ہے۔ مغربی اور جنوبی دیواروں پر موجود کونے کے برج اور ایک درمیانی دیوار کا برج اب بھی نظر آتے ہیں لیکن گھنے نباتاتی نمو کے باعث زمین پر ان کا معائنہ کرنا مشکل ہے۔

رانوکوٹ آج زرعی زمین سے گھرا ہوا ہے.
رانوکوٹ آج زرعی زمین سے گھرا ہوا ہے۔

اینٹوں کا استعمال صرف مشرقی ٹیلے میں پایا گیا ہے، جو کسی مختلف تعمیراتی دور یا مرمت سے منسلک ہو سکتا ہے۔ اگر یہ ٹیلہ قلعے کے دروازے سے وابستہ ہے تو یہ شاید کسی بعد کے دور میں قلعے کی مضبوطی کے لیے بنایا گیا تھا۔محدود مقدار میں موجود ریتيلے پتھر اور  اینٹوں کی تعمیر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اسے قریبی عمارتوں، مقبروں یا مزارات میں دوبارہ استعمال کے لیے نکالا گیا ہوگا۔

اینٹوں کا استعمال صرف مشرقی ٹیلے میں پایا گیا ہے، جو کسی مختلف تعمیراتی دور یا مرمت سے منسلک ہو سکتا ہے۔ اگر یہ ٹیلہ قلعے کے دروازے سے وابستہ ہے تو یہ شاید کسی بعد کے دور میں قلعے کی مضبوطی کے لیے بنایا گیا تھا۔ محدود مقدار میں موجود ریتيلے پتھر اور اینٹوں کی تعمیر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اسے قریبی عمارتوں، مقبروں یا مزارات میں دوبارہ استعمال کے لیے نکالا گیا ہوگا۔

رانو کوٹ کی دیواریں ریتيلے پتھر سے تعمیر کی گئی ہیں اور مٹی اور پتھروں کے ملبے سے بھری ہوئی ہیں۔
رانو کوٹ کی دیواریں ریتيلے پتھر سے تعمیر کی گئی ہیں اور مٹی اور پتھروں کے ملبے سے بھری ہوئی ہیں۔

مقام کی تاریخ

۱۸ویں صدی میں سندھ میں پہلے سے کمزور ہوتی ہوئی مغل سلطنت کی بیرونی حدود پر واقع، ڈیلٹا کے علاقے میں کئی جاگیریں اور ریاستیں اُبھریں۔ یہ سیاسی سازشوں، بڑھتی ہوئی مقامی رقابتوں اور علاقائی توسیع کی خواہشات کا ایک ہنگامہ خیز دور تھا۔ دھراجا، جس پر رانا ارجن حکمران تھا، ایسی ہی کئی جاگیروں میں سے ایک تھی، جس نے اس وقت سندھ کے دارالحکومت ٹھٹھہ میں قائم مغل حکومت کی حکمرانی کو چیلنج کیا۔ رانو کوٹ، جو دھراجا کا ایک مضبوط قلعہ تھا، مغربی آبی راستوں پر قابض تھا اور رانا ارجن اور اس کے خاندان کی ذاتی رہائش گاہ کے طور پر بھی کام کرتا تھا۔

شاہی مغل فرمان کے تحت سندھ کے ناظم میاں غلام شاہ کلہوڑو نے شاکر اللہ کو ٹھٹھہ کا نواب مقرر کیا اور اسے حکم دیا کہ وہ رانا ارجن کے قتل اور اس کے علاقے کے الحاق کا انتظام کرے۔ شاکر اللہ نے یہ کام بیجار 

جوکھیو کے سپرد کیا۔رانا ارجن کے شکست کھانے کے حوالے سے مختلف  روایات آخرکار موجود ہیں۔ ایک روایت کے مطابق، جب کلہوڑو افواج رانو کوٹ پر حملہ آور ہو رہی تھیں، رانا ارجن نے اپنے خاندان کو کشتی کے ذریعے فرار ہونے کا حکم دیا، جبکہ وہ خود اور اس کی چھوٹی سی فوج مچک جزیرے اور رتوکوٹ کے کھنڈرات کی طرف نکل گئے۔ اس فرار کی خبر ملنے پر، بیجار جوکھیو اور اس کے ۸۰ آدمیوں نے رات کے وقت رانا ارجن کے ڈیرے پر حملہ کر دیا۔ اس لڑائی میں رانا ارجن مارا گیا اور اس کے ساتھ ہی ۱۷۴۷ میں دھراجا ریاست کا خاتمہ ہو گیا۔ بیجار جوکھیو کو اس کی خدمات کے صلے میں جوکھیوں کا جام (سردار) مقرر کیا گیا اور کلہوڑو حکمرانوں نے مغربی ڈیلٹا کی قیمتی زمینوں پر قبضہ جما لیا۔

مقام کو خطرے

رانو کوٹ کو اس کے ارد گرد موجود زرعی زمینوں اور انسانی سرگرمیوں سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ قلعے کے آس پاس کی زمین وسیع پیمانے پر کاشت کی جا رہی ہے اور قلعے کی حدود پر کسانوں اور چرواہوں کی جانب سے مسلسل تجاوز کیا جا رہا ہے۔ قلعے کے کچھ حصے زرعی اور چراگاہی مقاصد کے لیے استعمال کیے جا چکے ہیں، جس کی وجہ سے اس کی بتدریج تباہی ہو رہی ہے۔ قلعے کی دیواروں اور دیگر تعمیرات کا مواد جیسے اینٹیں اور

پتھر، نکال کر قریبی عمارتوں میں استعمال کیے جانے کے شواہد بھی ملے ہیں۔ یہ تمام انسانی عوامل قلعے کی تاریخی حیثیت کے لیے خطرہ ہیں، جس کی وجہ سے فوری حفاظتی اقدامات اور پائیدار زمین کے استعمال کی ضرورت بڑھ جاتی ہے تاکہ اس تاریخی مقام کو محفوظ رکھا جا سکے۔

رانو کوٹ کو اس کے ارد گرد موجود زرعی زمینوں اور انسانی سرگرمیوں سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ قلعے کے آس پاس کی زمین وسیع پیمانے پر کاشت کی جا رہی ہے اور قلعے کی حدود پر کسانوں اور چرواہوں کی جانب سے مسلسل تجاوز کیا جا رہا ہے۔ قلعے کے کچھ حصے زرعی اور چراگاہی مقاصد کے لیے استعمال کیے جا چکے ہیں، جس کی وجہ سے اس کی بتدریج تباہی ہو رہی ہے۔ قلعے کی دیواروں اور دیگر تعمیرات کا مواد جیسے اینٹیں اور پتھر، نکال کر قریبی عمارتوں میں استعمال کیے جانے کے شواہد بھی ملے ہیں۔ یہ تمام انسانی عوامل قلعے کی تاریخی حیثیت کے لیے خطرہ ہیں، جس کی وجہ سے فوری حفاظتی اقدامات اور پائیدار زمین کے استعمال کی ضرورت بڑھ جاتی ہے تاکہ اس تاریخی مقام کو محفوظ رکھا جا سکے۔

جام جسکر گوٹھ کا 3D تجربہ دریافت کریں۔

ماہروں کی آراء: رانوکوٹ پر گفتگو

ماہروں کی آراء: رانوکوٹ پر گفتگو

مقام کا تصویر خانہ

رانوکوٹ سے متعلق مزید تصاویر اور ویڈیوز

ان مقامات پر اپنی تحقیق جاری رکھنے کے ليے

ورثے کے وسائل تک رسائی

ہمارے ورثے کے منصوبے کو تفصیل سے دریافت کرنے کے لیے ضروری دستاویزات، تصاویر اور آلَہ دریافت کریں۔

ان مقامات پر اپنی تحقیق جاری رکھنے کے ليے

ورثے کے وسائل تک رسائی

ہمارے ورثے کے منصوبے کو تفصیل سے دریافت کرنے کے لیے ضروری دستاویزات، تصاویر اور آلَہ دریافت کریں۔

Coming Soon